ShareChat
click to see wallet page
*علمِ منطق کی اہمیت، ضرورت اور عصری ذہن کو سمجھانے کا اسلوب* علمِ منطق وہ علم ہے جو انسان کی سوچ کو درست راستے پر چلاتا ہے۔ یہ علم عقل کو اتنی پختگی عطا کرتا ہے کہ انسان صحیح اور غلط میں فرق کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ سوچ کی خرابی دور ہوتی ہے، بات سمجھنے اور سمجھانے کا سلیقہ پیدا ہوتا ہے، اور ذہن منظم ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام علوم میں پختگی اسی وقت حاصل ہوتی ہے جب علمِ منطق کی بنیاد مضبوط ہو۔ منطق پڑھنے کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسان ہر علم کی تعریف کو صحیح طور پر سمجھ لیتا ہے۔ کسی بات میں دعویٰ ہو تو اس کے لیے مضبوط دلیل قائم کرنا آ جاتا ہے۔ سامنے والا کس نوعیت کا ذہن رکھتا ہے، اس کے لیے کس انداز میں دلیل پیش کرنی ہے، کیا بات اس کی سمجھ میں جلد آئے گی—یہ سارا نظام منطق ہی سکھاتی ہے۔ اسی لیے مسلمان کو نقلی دلیل دی جاتی ہے کیونکہ وہ قرآن و حدیث مانتا ہے، جبکہ غیر مسلم کو عقلی دلیل دی جاتی ہے کیونکہ وہ نقلی دلیل نہیں مانتا۔ یہ امتیاز اور یہ فرق منطق کے بغیر سمجھ میں نہیں آتا۔ آج کے دور میں ایک نعرہ بہت تیزی سے پھیلایا جا رہا ہے: “میرا جسم، میری مرضی”۔ عصری عورتیں اس نعرے کو آزادی سمجھتی ہیں، مگر منطق سکھاتی ہے کہ جذبات کے بجائے عقل سے بات کی جائے۔ اگر اس عورت سے کہا جائے کہ میں تمہارے پاس پچاس ہزار روپے امانت رکھ کر جا رہی ہوں تو کیا تم ان میں سے کچھ اپنی مرضی سے خرچ کر سکتی ہو؟ تو وہ فوراً کہے گی کہ نہیں، کیونکہ وہ امانت ہیں۔ پھر اس سے پوچھیں کہ یہ جسم کیا تم نے خود بنایا ہے؟ کیا اس جسم کی اصل مالک تم خود ہو؟ اس کا ڈھانچہ کس نے بنایا؟ وہ جواب دے گی کہ اللہ نے بنایا ہے۔ تو جب جسم تمہاری تخلیق نہیں، بلکہ اللہ کی عطا ہے، تو پھر یہ جسم بھی امانت ہوا۔ جب پچاس ہزار کی امانت میں اپنی مرضی چلانا خیانت ہے، تو اللہ کی دی ہوئی امانت—جسم—میں اپنی مرضی چلانا کیسے درست ہوسکتا ہے؟ منطق عقل سے سمجھاتی ہے کہ یہ کہنا کہ “میرا جسم میری مرضی” عقلاً بھی غلط ہے اور شرعاً بھی۔ اگر اللہ تعالیٰ انسان کو جسم نہ دیتا تو وہ فخر کس چیز پر کرتی؟ اگر زبان نہ دیتا تو وہ نعرہ کیسے لگاتی؟ لہٰذا صحیح بات یہ ہے کہ یہ جسم اللہ کی امانت ہے، انسان کا اپنا بنایا ہوا نہیں۔ اس پر اللہ کی مرضی چلتی ہے، بندے کی نہیں۔ علمِ منطق اس لیے بھی ضروری ہے کہ یہ انسان کو یہ سکھاتا ہے کہ کس موقع پر کیا کہنا ہے، کس کو کیا سمجھانا ہے، بات کیسے پیش کرنی ہے، اور کہاں کون سی مثال موزوں ہوگی۔ اس کے بغیر گفتگو بے وزن ہو جاتی ہے، دلیل کمزور پڑ جاتی ہے، اور سوچ کی کمزوری ظاہر ہو جاتی ہے۔ بعض طالبات کو یہ علم شروع میں مشکل لگتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ مشکل علم نہیں ہوتا، طریقۂ تدریس مشکل ہوتا ہے۔ اگر استاد آسان مثالوں کے ذریعے پڑھائے، روز مرہ زندگی کی باتوں پر منطق کو فٹ کر کے سمجھائے تو یہ علم بہت آسان ہو جاتا ہے۔ نئے نئے الفاظ جیسے “قضیہ، خبریہ، تضمنی، ترکیب” شروع میں اجنبی لگتے ہیں، مگر رفتہ رفتہ ذہن ان سے مانوس ہوجاتا ہے۔ علمِ منطق کی تعریف یہ ہے کہ “سوچ کی غلطی سے بچنے کا نام منطق ہے۔” اس علم کو منطق اس لیے کہتے ہیں کہ یہ نطق یعنی گفتگو سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ صحیح طور پر بات کرنے، دلیل قائم کرنے اور عقل کو درست سمت دینے والا علم ہے۔ استاد کی ذمہ داری صرف کتاب پڑھانا نہیں ہوتی بلکہ علم پہنچانا، سمجھانا، رہنمائی کرنا، مشورہ دینا اور فیصلہ سمجھانا بھی اس کی ذمہ داری میں شامل ہے۔ رٹا لگوانا علم نہیں کہلاتا، اصل علم وہ ہے جو ذہن اور عمل دونوں کو روشن کرے۔ #📿بیانات 🤲 #🥰میرا سٹیٹس ❤️ #🕌 نعت شریف🎧
📿بیانات 🤲 - Jin Islami Shehzadiyan Ko Ye course Karna hai woh Personal message karen ALadfia] ಲ ~லi رب انرک لصاح <೮; # 9u قح ۓایض سروک مولع ضرف Jarz Ullbom Course لجو زع هلل اماش ثا ازاغآ =.]20` FREE) Fon J/ ^ ఓ రళల 0NLY LADIES . 0 عقوم اربس اک ےنی ەیرذ ےک گنڈراکر RECORDINO  ہدئاف یهب دوخ اك عٹوس ےرہنس ےسیا ںویدازہ ث <^(.| <ربئاهٹا C ಜ' * ೨ ںیئارک لماش یهبوک Jin Islami Shehzadiyan Ko Ye course Karna hai woh Personal message karen ALadfia] ಲ ~லi رب انرک لصاح <೮; # 9u قح ۓایض سروک مولع ضرف Jarz Ullbom Course لجو زع هلل اماش ثا ازاغآ =.]20` FREE) Fon J/ ^ ఓ రళల 0NLY LADIES . 0 عقوم اربس اک ےنی ەیرذ ےک گنڈراکر RECORDINO  ہدئاف یهب دوخ اك عٹوس ےرہنس ےسیا ںویدازہ ث <^(.| <ربئاهٹا C ಜ' * ೨ ںیئارک لماش یهبوک - ShareChat

More like this