
___♥︎صـالحـہ♥︎___
@s____qadri
وَمَاالْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرور
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ تَطْمَىٕنُّ قُلُوْبُهُمْ بِذِكْرِ اللّٰهِؕ-اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىٕنُّ الْقُلُوْبُ #👳♂️روحانی رہنما💞
✍🏻`دل کیوں خراب ہوتے ہیں؟`
امام حسن بصری رحمہ الله فرماتے ہیں:
چھ کاموں کی وجہ سے دل خراب ہو جاتے ہیں:
🥀🖤…
1. گناہ کرتے ہیں اس امید پر کہ بعد میں توبہ کرلیں گے۔
2. علم حاصل کرتے ہیں مگر اس پر عمل نہیں کرتے۔
3. اگر عمل کرتے ہیں تو اخلاص کے بغیر کرتے ہیں۔
4. الله کا رزق کھاتے ہیں مگر شکر ادا نہیں کرتے۔
5. الله کی تقسیم پر ناراض ہوتے ہیں (یعنی قناعت نہیں کرتے)۔
6. مُردوں کو دفن کرتے ہیں مگر اُن سے عبرت حاصل نہیں کرتے۔❤️🩹🥹
*(📗ماخذ: ایقاظ اولی الهمم العالية، ص 96)* #🕌 نعت شریف🎧
`السَّـــــــــــــــــــــلَامُ عَلَــــــــــــــــــــــيْكُمُ`
*صـبــــــح بـــــخـــیـــــر*
> *دعا ھے کہ آپ کا آج کا دن خیر و عافیت سے گزرے اللہ پاک آپکی* *ھر دلی خواہش پوری* *کرے آپ کا گلشن حیات خوشیوں سے مہکتا رھے. صحت و سکون* *نصیب ھو*
*آمیـــــــــــــن ثم آمیـــــــــــــن یا رب العالمـــــــین🤲🏻* #🕌سیرت النبیﷺ📓
*حضرت علامه امام فخر الدین رازی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ تحریر فرماتے ہیں*
*کہ دنیا ایک باغ ہے جسے پانچ چیزوں سے سجایا گیا ہے عالموں کے علم سے ، حاکموں کے انصاف سے ، عبادت گزاروں کی عبادت سے تاجروں کی امانت سے اور اہل پیشہ کی نصیحت سے تو ابلیس نے پانچ قسم کا جھنڈا آکر ان چیزوں کی بغل میں گاڑ دیا ۔ علم کے پہلو میں حسد کا جھنڈا ، انصاف کے بازو میں ظلم کا جھنڈا ، عبادت کی بغل میں ریا کاری کا جھنڈا، امانت کے پہلو میں خیانت کا جھنڈا اور اہلِ پیشہ کے بازو میں کھوٹ کا جھنڈا ۔*
*📓تفسیر کبیر جلد اول ص ۳۶*
*علم کی بغل میں حسد کا جھنڈا ابلیس کے گاڑنے ہی کا اثر ہے کہ عالموں میں حسد بہت زیادہ پایا جاتا ہے یہاں تک کہ استاد شاگرد سے اور شاگرد استاد سے حسد کرنے لگتا ہے بلکہ یہاں تک کہ بعض عالم جو اپنے قول و فعل سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ ہم تقویٰ کی سب سے بلند چوٹی پر بیٹھے ہوئے ہیں وہ بھی ابلیس کے حسدی جھنڈا کے نیچے آکر بری طرح حسد کرنے لگتے ہیں اور دین متین کی صحیح خدمت کرنے والے عالموں کو طرح طرح سے اذیتیں پہنچاتے ہیں*
#🕌 نعت شریف🎧 #🕌سیرت النبیﷺ📓 #📗حدیث کی باتیں📜
اکثر فقہاء کرام کے نزدیک عورت کی آواز بذات خود "ستر" (عورت) میں داخل نہیں ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ عہد نبوی میں خواتین صحابہ مردوں کی موجودگی میں سوالات پوچھتی تھیں اور ان سے بات چیت کرتی تھیں۔ تاہم، اس مسئلے میں کچھ شرائط اور تفصیلات ہیں:
نرمی اور لچکدار لہجے سے پرہیز: قرآن کریم میں امہات المؤمنین (نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات) اور تمام مسلمان خواتین کو حکم دیا گیا ہے کہ جب وہ غیر محرم مردوں سے بات کریں تو اپنی آواز میں نرمی اور لچک پیدا نہ کریں، تاکہ جس شخص کے دل میں بیماری (شہوت) ہو، وہ کسی غلط خیال میں مبتلا نہ ہو۔ انہیں "مناسب اور عام" طریقے سے بات کرنی چاہیے۔
ضرورت اور فتنہ کا خوف: عورت کو ضرورت کے وقت مردوں سے بات کرنے کی اجازت ہے، لیکن بلا ضرورت غیر محرم مردوں سے بات چیت کرنے یا آواز سنانے سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ فتنہ (آزمائش یا جنسی خواہش پیدا ہونے) کا امکان ہو سکتا ہے۔
عوامی مقامات پر آواز: اگر کوئی عورت عوامی سطح پر، جیسے تعلیم یا دعوت و تبلیغ کے سلسلے میں بات کرتی ہے، تو اسے وقار اور باوقار انداز میں بات کرنی چاہیے، بغیر کسی بناؤ سنگھار یا دلکش لہجے کے۔
خلاصہ یہ کہ عورت کی آواز پردہ نہیں ہے، لیکن اس کا لہجہ اور بات کرنے کا انداز ایسا ہونا چاہیے جو حیا کے تقاضوں کے مطابق ہو اور فتنے کا باعث نہ بنے۔ #🕌سیرت النبیﷺ📓 #📗حدیث کی باتیں📜



